EN हिंदी
دکھ نہ سہنے کی سزاؤں میں گھرا رہتا ہے | شیح شیری
dukh na sahne ki sazaon mein ghira rahta hai

غزل

دکھ نہ سہنے کی سزاؤں میں گھرا رہتا ہے

زکریا شاذ

;

دکھ نہ سہنے کی سزاؤں میں گھرا رہتا ہے
شہر کا شہر دعاؤں میں گھرا رہتا ہے

نہ بلاؤ تو بلاتا ہی نہیں ہے کوئی
جس کو دیکھو وہ اناؤں میں گھرا رہتا ہے

کوئی منزل ہے کہ دوری میں چھپی ہے کب سے
کوئی رستہ ہے کہ پاؤں میں گھرا رہتا ہے

دل کو فرصت نہیں ملتی کبھی امیدوں سے
یہ سکھی شاذؔ گداؤں میں گھرا رہتا ہے