دکھ نہ سہنے کی سزاؤں میں گھرا رہتا ہے
شہر کا شہر دعاؤں میں گھرا رہتا ہے
نہ بلاؤ تو بلاتا ہی نہیں ہے کوئی
جس کو دیکھو وہ اناؤں میں گھرا رہتا ہے
کوئی منزل ہے کہ دوری میں چھپی ہے کب سے
کوئی رستہ ہے کہ پاؤں میں گھرا رہتا ہے
دل کو فرصت نہیں ملتی کبھی امیدوں سے
یہ سکھی شاذؔ گداؤں میں گھرا رہتا ہے
غزل
دکھ نہ سہنے کی سزاؤں میں گھرا رہتا ہے
زکریا شاذ