دکھ کا احساس نہ مارا جائے
آج جی کھول کے ہارا جائے
ان مکانوں میں کوئی بھوت بھی ہے
رات کے وقت پکارا جائے
سوچنے بیٹھیں تو اس دنیا میں
ایک لمحہ نہ گزارا جائے
ڈھونڈتا ہوں میں زمیں اچھی سی
یہ بدن جس میں اتارا جائے
ساتھ چلتا ہوا سایہ اپنا
ایک پتھر اسے مارا جائے
ہم یگانہ تو نہیں ہیں علویؔ
ناؤ جائے کہ کنارا جائے
غزل
دکھ کا احساس نہ مارا جائے
محمد علوی