دعائیں دے کے جو دشنام لیتے رہتے ہیں
وہ جام دیتے ہیں اور جام لیتے رہتے ہیں
خفا نہ ہو کہ ہمارا قصور کوئی نہیں
بلا ارادہ ترا نام لیتے رہتے ہیں
ہجوم غم میں ترا نام بھول بھی جائے
تو پھر بھی جیسے ترا نام لیتے رہتے ہیں
یہ نام ایسا ہے بالکل ہی گر نہ لیں اس کو
تو پھر بھی ہم سحر و شام لیتے رہتے ہیں
تری نگاہ کا کیا قرض ہم اتاریں گے
تری نظر سے بڑے کام لیتے رہتے ہیں
میں وہ مسافر روشن خیال ہوں یارو
جو راستے میں بھی آرام لیتے رہتے ہیں
غم حیات کی تعلیم و تربیت کے لیے
تری نگاہ کے احکام لیتے رہتے ہیں
پڑی ہے یوں ہمیں بد نامیوں کی چاٹ عدمؔ
کہ مسکرا کے ہر الزام لیتے رہتے ہیں
غزل
دعائیں دے کے جو دشنام لیتے رہتے ہیں
عبد الحمید عدم