دستار فقیرانہ اک تاج سے افزوں ہے
راہ طرح خم خانہ معراج سے افزوں ہے
ایسے ہی حکومت ہے ایسے ہی عبادت ہے
یہ شاہ فقیرانہ محتاج سے افزوں ہے
چلتے ہو پرستاں میں پریاں ہیں بہت شائق
اب حسن پری خانہ پھر آج سے افزوں ہے
کیا غم ہے چھلک جائے ساغر مرا اے ساقی
وہ تاکنا پیمانہ آماج سے افزوں ہے
پھر ہوئے فزوں دولت اخترؔ یہ دعا دے تو
یہ فقرۂ پیرانہ اک راج سے افزوں ہے
غزل
دستار فقیرانہ اک تاج سے افزوں ہے
واجد علی شاہ اختر