EN हिंदी
دوستوں میں واقعی یہ بحث بھی اکثر ہوئی | شیح شیری
doston mein waqai ye bahs bhi aksar hui

غزل

دوستوں میں واقعی یہ بحث بھی اکثر ہوئی

اقبال عمر

;

دوستوں میں واقعی یہ بحث بھی اکثر ہوئی
ہار کس کے سر ہوئی ہے جیت کس کے سر ہوئی

ذہن بے پیکر ہوا اور عقل بے منظر ہوئی
دل تو پتھر ہو چکا تھا آنکھ بھی پتھر ہوئی

لوگ کہتے ہیں کہ قدر مشترک کوئی نہیں
اس خرابے میں تو سب کی زندگی دوبھر ہوئی

روز و شب اخبار کی خبروں سے بہلاتا ہوں جی
یہ سمجھتا ہوں کہ اب تو روشنی گھر گھر ہوئی

ذہن میں آنے لگے پھر نا پسندیدہ خیال
وہ کہانی کیسے بھولیں نقش جو دل پر ہوئی

دکھ بھری آواز سنتا ہوں تو ہوتا ہوں اداس
یہ خطا ٹھہری تو مجھ سے یہ خطا اکثر ہوئی

اک زمانے سے تو بس اقبالؔ اپنی زندگی
درد کا بستر ہوئی احساس کی چادر ہوئی