دوستوں کا ذکر کیا دشمن ہیں جب بدلے ہوئے
شہر میں تو اب نظر آتے ہیں سب بدلے ہوئے
زیست کے ادوار کتنے مختلف سے ہو گئے
سال و مہ ٹھہرے ہوئے اور روز و شب بدلے ہوئے
کس کی دل جوئی کریں کس کو مبارک باد دیں
جب خوشی اور غم کے ہوں یکسر سبب بدلے ہوئے
اک پرانا راستہ اب کس طرح ڈھونڈے کوئی
شہر بھر کے سب گلی کوچے ہوں جب بدلے ہوئے
روز و شب کی گردشیں دل کو بدل پائی نہیں
آئینے میں گرچہ ہیں رخسار و لب بدلے ہوئے
غزل
دوستوں کا ذکر کیا دشمن ہیں جب بدلے ہوئے
شبنم شکیل