EN हिंदी
دوستو وقت ہے پھر زخم جگر تازہ کریں | شیح شیری
dosto waqt hai phir zaKHm-e-jigar taza karen

غزل

دوستو وقت ہے پھر زخم جگر تازہ کریں

جوشؔ ملیح آبادی

;

دوستو وقت ہے پھر زخم جگر تازہ کریں
پردہ جنبش میں ہے پھر آؤ نظر تازہ کریں

تاکجا نالۂ غربت کہ چلی باد شمال
دل میں پھر زمزمۂ عزم سفر تازہ کریں

آؤ پھر دھوم سے ہو آج غروب اور طلوع
سنت بندگئ شمس و قمر تازہ کریں

آؤ چل کر رخ نا شستہ کو دیکھیں دم صبح
موج رنگ افق و نور سحر تازہ کریں

کلہ فقر کو کج کر کے سر بزم نشاط
آؤ رسم کہن تاج و کمر تازہ کریں

آؤ پھر جلوۂ جاناں پہ لٹا دیں کونین
شغل پارینۂ ارباب نظر تازہ کریں

طبق زر میں لگا کر پئے نظر جاناں
آؤ پھر آبروئے لعل و گہر تازہ کریں

آؤ پھر جوشؔ کو دے کر لقب شاہ سخن
دل و دین سخن و جان ہنر تازہ کریں