دوستو بارگہہ قتل سجاتے جاؤ
قرض ہے رشتۂ جاں قرض چکاتے جاؤ
رہے خاموش تو یہ ہونٹ سلگ اٹھیں گے
شعلۂ فکر کو آواز بناتے جاؤ
اپنی تقدیر میں صحرا ہے تو صحرا ہی سہی
آبلہ پاؤ! نئے پھول کھلاتے جاؤ
زندگی سایۂ دیوار نہیں دار بھی ہے
زیست کو عشق کے آداب سکھاتے جاؤ
بے ضمیری ہے سرافراز تو غم کیسا ہے
اپنی تذلیل کو معیار بناتے جاؤ
اے مسیحاؤ اگر چارہ گری ہے دشوار
ہو سکے تم سے نیا زخم لگاتے جاؤ
کارواں عزم کا روکے سے کہیں رکتا ہے
لاکھ تم راہ میں دیوار اٹھاتے جاؤ
ایک مدت کی رفاقت کا ہو کچھ تو انعام
جاتے جاتے کوئی الزام لگاتے جاؤ
جن کو گہنہ دیا افکار کی پرچھائیں نے
محسنؔ ان چہروں کو آئینہ دکھاتے جاؤ
غزل
دوستو بارگہہ قتل سجاتے جاؤ
محسنؔ بھوپالی