EN हिंदी
دوستی نہ کی ہوگی کھیل ہی کیا ہوگا | شیح شیری
dosti na ki hogi khel hi kiya hoga

غزل

دوستی نہ کی ہوگی کھیل ہی کیا ہوگا

پروین مرزا

;

دوستی نہ کی ہوگی کھیل ہی کیا ہوگا
آپ نے ہمیں سوچا غیر خوش ہوا ہوگا

میری روح میں کتنے زخم کھل گئے دیکھو
کوئی دل کے آنگن میں درد بو گیا ہوگا

جو بھی اس سے ملتا ہے خواب بننے لگتا ہے
کون جانے کس کس سے اس نے کیا کہا ہوگا

راستے میں پل بھر ہی وہ ہمیں ملے بس پھر
شہر میں کہانی کا سلسلہ چلا ہوگا

زندگی سجا لے پھر آئنے میں دیکھوں گی
مجھ پہ درد کا زیور کیسا لگ رہا ہوگا

خواب آسمانوں کے دیکھنے لگیں پرویںؔ
ایسے ہی ستارے پر نام رکھ دیا ہوگا