دوستی کو عام کرنا چاہتا ہے
خود کو وہ نیلام کرنا چاہتا ہے
بیچ آیا ہے گھٹا کے ہاتھ سورج
دوپہر کو شام کرنا چاہتا ہے
نوکری پہ بس نہیں جاں پہ تو ہوگا
اب وہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے
عمر بھر خود سے رہا ناراض لیکن
دوسروں کو رام کرنا چاہتا ہے
بیچتا ہے سچ بھرے بازار میں وہ
زہر پی کر نام کرنا چاہتا ہے
مقطع بے رنگ کہہ کر آج اسلمؔ
حجت اتمام کرنا چاہتا ہے
غزل
دوستی کو عام کرنا چاہتا ہے
اسلم حبیب