EN हिंदी
دوستی کا فریب ہی کھائیں | شیح شیری
dosti ka fareb hi khaen

غزل

دوستی کا فریب ہی کھائیں

شکیب جلالی

;

دوستی کا فریب ہی کھائیں
آؤ کاغذ کی ناؤ تیرائیں

ہم اگر رہروی کا عزم کریں
منزلیں کھنچ کے خود چلی آئیں

ہم کو آمادۂ سفر نہ کرو
راستے پر خطر نہ ہو جائیں

ہم سفر رہ گئے بہت پیچھے
آؤ کچھ دیر کو ٹھہر جائیں

مطربہ ایسا گیت چھیڑ کہ ہم
زندگی کے قریب ہو جائیں

ان بہاروں کی آبرو رکھ لو
مسکراؤ کہ پھول کھل جائیں

گیسوئے زیست کے یہ الجھاؤ
آؤ مل کر شکیبؔ سلجھائیں