دوستی کا فریب ہی کھائیں
آؤ کاغذ کی ناؤ تیرائیں
ہم اگر رہروی کا عزم کریں
منزلیں کھنچ کے خود چلی آئیں
ہم کو آمادۂ سفر نہ کرو
راستے پر خطر نہ ہو جائیں
ہم سفر رہ گئے بہت پیچھے
آؤ کچھ دیر کو ٹھہر جائیں
مطربہ ایسا گیت چھیڑ کہ ہم
زندگی کے قریب ہو جائیں
ان بہاروں کی آبرو رکھ لو
مسکراؤ کہ پھول کھل جائیں
گیسوئے زیست کے یہ الجھاؤ
آؤ مل کر شکیبؔ سلجھائیں
غزل
دوستی کا فریب ہی کھائیں
شکیب جلالی