دوستی جب کسی سے کی جائے
دشمنوں کی بھی رائے لی جائے
موت کا زہر ہے فضاؤں میں
اب کہاں جا کے سانس لی جائے
بس اسی سوچ میں ہوں ڈوبا ہوا
یہ ندی کیسے پار کی جائے
اگلے وقتوں کے زخم بھرنے لگے
آج پھر کوئی بھول کی جائے
لفظ دھرتی پہ سر پٹکتے ہیں
گنبدوں میں صدا نہ دی جائے
کہہ دو اس عہد کے بزرگوں سے
زندگی کی دعا نہ دی جائے
بوتلیں کھول کے تو پی برسوں
آج دل کھول کر ہی پی جائے
غزل
دوستی جب کسی سے کی جائے
راحتؔ اندوری