دوستی چاہ دلی مہر و محبت گزری
سیدھے منہ بات بھی کرتا نہیں رت گزری
ایک مصرعہ جو پڑھا وصف قد یار میں ہم
سرو کے سر پہ گلستاں میں قیامت گزری
ہم نشیں پوچھ نہ کچھ چپ ہی بھلی ہے اس سے
شب فرقت میں جو کچھ ہم پہ صعوبت گزری
صبح کو نام کسی نے جو لیا اس کا یہاں
دل مشتاق پہ بے طرح کی حالت گزری
آنکھ ہم سے جو ملاتا نہیں وہ آئینہ رو
خاکساروں سے یہ کیا دل میں کدورت گزری
کبھو لڑتا تھا کبھو ہنس کے لپٹ جاتا تھا
کیوں نثارؔ اس سے عجب راتوں کی صحبت گزری
غزل
دوستی چاہ دلی مہر و محبت گزری
محمد امان نثار