دوست کا گھر اور دشمن کا پتہ معلوم ہے
زندگی ہم کو ترا یہ سلسلہ معلوم ہے
زندگی جا ہم بھی کوئے آرزو تک آ گئے
اس کے آگے ہم کو سارا راستہ معلوم ہے
کیا منجم سے کریں ہم اپنے مستقبل کی بات
حال کے بارے میں ہم کو کون سا معلوم ہے
یا تو جو نافہم ہیں وہ بولتے ہیں ان دنوں
یا جنہیں خاموش رہنے کی سزا معلوم ہے
شعر پر تو آپ کی قدرت مسلم ہے شجاعؔ
اس زمانے کا بھی کچھ اچھا برا معلوم ہے
غزل
دوست کا گھر اور دشمن کا پتہ معلوم ہے
شجاع خاور