EN हिंदी
دوست بن کر وہ دلستاں نہ رہا | شیح شیری
dost ban kar wo dilsitan na raha

غزل

دوست بن کر وہ دلستاں نہ رہا

مرلی دھر شاد

;

دوست بن کر وہ دلستاں نہ رہا
چار دن بھی تو مہرباں نہ رہا

دل کے دم سے تھا حسرتوں کا ہجوم
اب وہ سالار کارواں نہ رہا

کیا حسینوں نے ظلم چھوڑ دیا
دل میں کیوں درد کا نشاں نہ رہا

کعبہ میں دیر میں کلیسا میں
ذکر اس کا کہاں کہاں نہ رہا

دل میں میرے وہ چھپ کے بیٹھ گئے
جب کوئی ان کا پاسباں نہ رہا

مجھ سے گر روٹھ کر گیا کوئی
بے وفائی کا بھی گماں نہ رہا

آپ کے ظلم بھی خوشی سے سہے
شادؔ کس روز شادماں نہ رہا