دوش پہ اپنے بار اٹھائے پھرتے ہیں
ہم کتنے آزار اٹھائے پھرتے ہیں
پریم نگر کے باسی کانٹوں کے بن میں
پھولوں کا انبار اٹھائے پھرتے ہیں
تن کے اجلے من کے کالے ہیں جو لوگ
نفرت کی دیوار اٹھائے پھرتے ہیں
دین دھرم کے نام پہ قوموں کے دشمن
دو دھاری تلوار اٹھائے پھرتے ہیں
نورؔ مرے آنگن میں پھر وہ رات گئے
پائل کی جھنکار اٹھائے پھرتے ہیں
غزل
دوش پہ اپنے بار اٹھائے پھرتے ہیں
نور منیری