دوش پر بار غم اٹھائے ہوئے
چل رہا ہوں قدم جمائے ہوئے
مجھ کو میری انا نے مار دیا
جو بھی اپنے تھے سب پرائے ہوئے
پھر اسی رہ گزر پہ بیٹھا ہوں
آرزو کے دئے جلائے ہوئے
ساحلوں پر پہنچ کے ڈوب گئے
تھے جو طوفاں سے بچ کے آئے ہوئے
حسرتیں خون ہو گئیں منظرؔ
وہ جو گزرے نظر بچائے ہوئے
غزل
دوش پر بار غم اٹھائے ہوئے
جاوید منظر