EN हिंदी
دوش پر بار غم اٹھائے ہوئے | شیح شیری
dosh par bar-e-gham uThae hue

غزل

دوش پر بار غم اٹھائے ہوئے

جاوید منظر

;

دوش پر بار غم اٹھائے ہوئے
چل رہا ہوں قدم جمائے ہوئے

مجھ کو میری انا نے مار دیا
جو بھی اپنے تھے سب پرائے ہوئے

پھر اسی رہ گزر پہ بیٹھا ہوں
آرزو کے دئے جلائے ہوئے

ساحلوں پر پہنچ کے ڈوب گئے
تھے جو طوفاں سے بچ کے آئے ہوئے

حسرتیں خون ہو گئیں منظرؔ
وہ جو گزرے نظر بچائے ہوئے