دوش دیتے رہے بیکار ہی طغیانی کو
ہم نے سمجھا نہیں دریا کی پریشانی کو
یہ نہیں دیکھتے کتنی ہے ریاضت کس کی
لوگ آسان سمجھ لیتے ہیں آسانی کو
بے گھری کا مجھے احساس دلانے والے
تو نے برتا ہے مری بے سر و سامانی کو
شرمساری ہے کہ رکنے میں نہیں آتی ہے
خشک کرتا رہے کب تک کوئی پیشانی کو
جیسے رنگوں کی بخیلی بھی ہنر ہو اظہرؔ
غور سے دیکھیے تصویر کی عریانی کو
غزل
دوش دیتے رہے بیکار ہی طغیانی کو
اظہر فراغ