EN हिंदी
دوش دیتے رہے بیکار ہی طغیانی کو | شیح شیری
dosh dete rahe be-kar hi tughyani ko

غزل

دوش دیتے رہے بیکار ہی طغیانی کو

اظہر فراغ

;

دوش دیتے رہے بیکار ہی طغیانی کو
ہم نے سمجھا نہیں دریا کی پریشانی کو

یہ نہیں دیکھتے کتنی ہے ریاضت کس کی
لوگ آسان سمجھ لیتے ہیں آسانی کو

بے گھری کا مجھے احساس دلانے والے
تو نے برتا ہے مری بے سر و سامانی کو

شرمساری ہے کہ رکنے میں نہیں آتی ہے
خشک کرتا رہے کب تک کوئی پیشانی کو

جیسے رنگوں کی بخیلی بھی ہنر ہو اظہرؔ
غور سے دیکھیے تصویر کی عریانی کو