دونوں ہی کی جانب سے ہو گر عہد وفا ہو
چاہت کا مزا جب ہے کہ تم بھی مجھے چاہو
یہ ہم نہیں کہتے ہیں کہ دشمن کو نہ چاہو
اس چاہ کا انجام مگر دیکھیے کیا ہو
شمشیر سے بڑھ کر ہیں حسینوں کی ادائیں
بے موت کیا قتل ان اچھوں کا برا ہو
معشوق طرح دار ہو انداز ہو اچھا
دل آئے نہ ایسے پہ تو پھر دل کا برا ہو
پورا کوئی ہوتا نظر آتا نہیں ارماں
ان کو تو یہ ضد ہے کہ ہمارا ہی کہا ہو
تم مجھ کو پلاتے تو ہو مے سینہ پہ چڑھ کر
اس وقت اگر کوئی چلا آئے تو کیا ہو
وعدہ وہ تمہارا ہے کہ لب تک نہیں آتا
مطلب یہ ہمارا ہے کہ باتوں میں ادا ہو
خنجر کی ضرورت ہے نہ شمشیر کی حاجت
ترچھی سی نظر ہو کوئی بانکی سی ادا ہو
خالی تو نہ جائیں دم رخصت مرے نالے
فتنہ کوئی اٹھے جو قیامت نہ بپا ہو
چوری کی تو کچھ بات نہیں مجھ کو بتا دو
میرا دل بے تاب اگر تم نے لیا ہو
ان سے دم رفتار یہ کہتی ہے قیامت
فتنے سے نہ خالی کوئی نقش کف پا ہو
بد ظن ہیں وہ اس طرح کہ سرمہ اسے سمجھیں
بیمار کی آنکھوں میں اگر نیل ڈھلا ہو
خط کھول کے پڑھتے ہوئے ڈرتا ہوں کسی کا
لپٹی ہوئی خط میں نہ کہیں میری قضا ہو
مرنا ہے اسی کا جو تجھے دیکھ کے مر جائے
جینا ہے اسی کا جو محبت میں جیا ہو
ہے دل کی جگہ سینہ میں کاوش ابھی باقی
پیکاں کوئی پہلو میں مرے رہ نہ گیا ہو
مجھ کو بھی کہیں اور سے آیا ہے بلاوا
اچھا ہے چلو آج بھی وعدہ نہ وفا ہو
بیخودؔ کا فسانہ تو ہے مشہور زمانہ
یہ ذکر تو شاید کبھی تم نے بھی سنا ہو

غزل
دونوں ہی کی جانب سے ہو گر عہد وفا ہو
بیخود دہلوی