دونوں ہم پیشہ تھے دونوں ہی میں یارانہ تھا
قاتل شہر سے پر ربط رقیبانہ تھا
وہ کھلے جسم پھرا شہر کے بازاروں میں
لوگ کہتے ہیں یہ اقدام دلیرانہ تھا
بند مٹھی میں مری راکھ تھی تعبیروں کی
اس کی آنکھوں میں بھی اک خواب مریضانہ تھا
لغزش پا بھی ہر اک گام تھی سایہ سایہ
زندگی تجھ سے تعلق بھی شریفانہ تھا
تم جہاں اپنی مسافت کے نشاں چھوڑ گئے
وہ گزر گاہ مری ذات کا ویرانہ تھا
سنتے ہیں اپنی ہی تلوار اسے کاٹ گئی
دوستو ہم میں جو اک شخص حریفانہ تھا
غزل
دونوں ہم پیشہ تھے دونوں ہی میں یارانہ تھا
زبیر رضوی