دونوں اپنے کام کے ماہر دونوں بڑے ذہین
سانپ ہمیشہ پھن لہرائے اور سپیرا بین
گرگ وہاں کوئی سر نہیں کرتا آہو پر بندوق
اس بستی کو جنگل کہنا جنگل کی توہین
سوختگاں کی بزم سخن میں صدر نشیں آسیب
چیخوں کے صد غزلوں پر سناٹوں کی تحسین
فتنۂ شب نے ختم کیا سب آنکھوں کا آزار
سارے خواب حقیقت بن گئے سارے وہم یقین
ہم بھی پتھر تم بھی پتھر سب پتھر ٹکراؤ
ہم بھی ٹوٹیں تم بھی ٹوٹو سب ٹوٹیں آمین
غزل
دونوں اپنے کام کے ماہر دونوں بڑے ذہین
عرفانؔ صدیقی