EN हिंदी
دو عمروں کی روئی دھن کر آیا ہوں | شیح شیری
do umron ki rui dhun kar aaya hun

غزل

دو عمروں کی روئی دھن کر آیا ہوں

الیاس بابر اعوان

;

دو عمروں کی روئی دھن کر آیا ہوں
میں پردیس سے خود کو بن کر آیا ہوں

دریا سے یاری بھی کتنی مشکل ہے
میں کشتی کے ٹکڑے چن کر آیا ہوں

تم کو کتنا شوق ہے فون پہ باتوں کا
آج بھی باس کی باتیں سن کر آیا ہوں

جانے کون چرا لیتا تھا میرا وقت
وال کلاک پہ جالا بن کر آیا ہوں

آج کی شام گزاریں گے ہم چھتری میں
بارش ہوگی خبریں سن کر آیا ہوں

دوست کو سمجھانے کی خاطر آیا تھا
ان جانے میں خود کو ٹن کر آیا ہوں