دو عمروں کی روئی دھن کر آیا ہوں
میں پردیس سے خود کو بن کر آیا ہوں
دریا سے یاری بھی کتنی مشکل ہے
میں کشتی کے ٹکڑے چن کر آیا ہوں
تم کو کتنا شوق ہے فون پہ باتوں کا
آج بھی باس کی باتیں سن کر آیا ہوں
جانے کون چرا لیتا تھا میرا وقت
وال کلاک پہ جالا بن کر آیا ہوں
آج کی شام گزاریں گے ہم چھتری میں
بارش ہوگی خبریں سن کر آیا ہوں
دوست کو سمجھانے کی خاطر آیا تھا
ان جانے میں خود کو ٹن کر آیا ہوں
غزل
دو عمروں کی روئی دھن کر آیا ہوں
الیاس بابر اعوان