دو جہاں کے حسن کا ارمان آدھا رہ گیا
اس صدی کے شور میں انسان آدھا رہ گیا
ہر عبادت گاہ سے اونچی ہیں مل کی چمنیاں
شہر میں ہر شخص کا ایمان آدھا رہ گیا
میں تو گھبرایا ہوا تھا یہ بہت اچھا ہوا
یاد ان کی آ گئی طوفان آدھا رہ گیا
پھول مہکے رنگ چھلکے جھیل پر ہم تم ملے
بات ہے یہ خواب کی رومان آدھا رہ گیا
تم کو آنا تھا نہیں آئے کہو میں کیا کروں
آسماں پر چاند سا مہمان آدھا رہ گیا
کیوں ہے اتنی تیز رو بتلا مری عمر رواں
زندگی کی راہ کا سامان آدھا رہ گیا
مختصر سا لکھ دیا اسرارؔ نے ان کو جواب
خط ملا پر آپ کا احسان آدھا رہ گیا
غزل
دو جہاں کے حسن کا ارمان آدھا رہ گیا
اسرار اکبر آبادی