EN हिंदी
دو گھڑی سائے میں جلنے کی اذیت اور ہے | شیح شیری
do ghaDi sae mein jalne ki aziyyat aur hai

غزل

دو گھڑی سائے میں جلنے کی اذیت اور ہے

اعزاز افصل

;

دو گھڑی سائے میں جلنے کی اذیت اور ہے
راستے میں ایک دیوار شرافت اور ہے

اب بہت دوری نہیں وعدوں کی منزل آ چلی
دو قدم بس موڑ تک چلنے کی زحمت اور ہے

دامنوں پر ڈھونڈیئے اب کیوں چراغوں کا لہو
ہم نہ کہتے تھے ہوا خواہوں کی نیت اور ہے

پھر بصارت کا تعاقب پھر اجالے کا سفر
ڈھل چکی ہے رات پل دو پل کی مہلت اور ہے

گھر سے خود نکلے تھے خیموں سے نکلوائے گئے
وہ پشیمانی الگ تھی یہ ندامت اور ہے

صبح عشرت کو شب غم کے تناظر میں نہ دیکھ
وہ قیامت دوسری تھی یہ قیامت اور ہے

زخم زاروں سے تو سب نشتر کدے نزدیک تھے
چارہ سازو کیا ہوا کتنی مسافت اور ہے