دو چار بار ہم جو کبھی ہنس ہنسا لئے
سارے جہاں نے ہاتھ میں پتھر اٹھا لئے
رہتے ہمارے پاس تو یہ ٹوٹتے ضرور
اچھا کیا جو اپنے سپنے چرا لئے
چاہا تھا ایک پھول نے تڑپیں اسی کے پاس
ہم نے خوشی سے پیڑوں میں کانٹے بچھا لئے
آنکھوں میں آئے اشک نے آنکھوں سے یہ کہا
اب روکو یا گراؤ ہمیں ہم تو آ لئے
سکھ جیسے بادلوں میں نہاتی ہوں بجلیاں
دکھ جیسے بجلیوں میں یہ بادل نہا لئے
جب ہو سکی نہ بات تو ہم نے یہی کیا
اپنی غزل کے شعر کہیں گنگنا لئے
اب بھی کسی دراز میں مل جائیں گے تمہیں
وہ خط جو تم کو دے نہ سکے لکھ لکھا لئے
غزل
دو چار بار ہم جو کبھی ہنس ہنسا لئے
کنور بے چین