دو آنکھوں سے کم سے کم اک منظر میں
دیکھوں رنگ و نور بہم اک منظر میں
اپنی کھوج میں سرگرداں بے سمت ہجوم
تنہائی دیتی ہے جنم اک منظر میں
تتلی کو رخسار پہ بیٹھا چھوڑ آئے
حیرت کو درکار تھے ہم اک منظر میں
لمحہ لمحہ بھرتے جائیں خوف کا رنگ
گہری شام اور تیز قدم اک منظر میں
گھات میں بیٹھا کوئی دانشور مجھ کو
گر دیتا ہے روز رقم اک منظر میں
اب جو اپنا سایہ ڈھونڈھتا پھرتا ہے
جا نکلے تھے بھول کے ہم اک منظر میں
غزل
دو آنکھوں سے کم سے کم اک منظر میں
سرفراز زاہد