دو عالم کے آفات سے دور کر دے
اک ایسی نظر چشم مخمور کر دے
نصیب محبت ہے اب وہ تمنا
انہیں جو تغافل سے معذور کر دے
ترے قرب کی ہائے یہ شان کیا ہے
جو ادراک ہستی سے بھی دور کر دے
کوئی کس طرح پائے اس ہم نشیں کو
جسے جستجو منزلوں دور کر دے
جمال اس کو کہئے کہ پرتو ہی جس کا
حجابوں کو نور علیٰ نور کر دے
نہ اب ہوش کا بس نہ طاقت جنوں میں
کہ حال طبیعت بدستور کر دے
سہاؔ جلوۂ شوخ شاداب ان کا
شباب گلستاں کو بے نور کر دے
غزل
دو عالم کے آفات سے دور کر دے
سہا مجددی