EN हिंदी
دو عالم کے آفات سے دور کر دے | شیح شیری
do aalam ke aafat se dur kar de

غزل

دو عالم کے آفات سے دور کر دے

سہا مجددی

;

دو عالم کے آفات سے دور کر دے
اک ایسی نظر چشم مخمور کر دے

نصیب محبت ہے اب وہ تمنا
انہیں جو تغافل سے معذور کر دے

ترے قرب کی ہائے یہ شان کیا ہے
جو ادراک ہستی سے بھی دور کر دے

کوئی کس طرح پائے اس ہم نشیں کو
جسے جستجو منزلوں دور کر دے

جمال اس کو کہئے کہ پرتو ہی جس کا
حجابوں کو نور علیٰ نور کر دے

نہ اب ہوش کا بس نہ طاقت جنوں میں
کہ حال طبیعت بدستور کر دے

سہاؔ جلوۂ شوخ شاداب ان کا
شباب گلستاں کو بے نور کر دے