دیئے نگاہوں کے اپنی بجھائے بیٹھا ہوں
تجھے میں کتنے دنوں سے بھلائے بیٹھا ہوں
مرے لئے ہی دھڑکتا ہے کائنات کا دل
کہاں اکیلا کوئی بوجھ اٹھائے بیٹھا ہوں
غبار راہ اڑے تو کوئی امید جگے
میں کب سے راہ میں پلکیں بچھائے بیٹھا ہوں
ہنر جو خواب چرانے کا میں نے سیکھا ہے
یہاں پہ کتنوں کی نیندیں اڑائے بیٹھا ہوں
کہیں وہ مجھ سے مجھے مانگ لے تو کیا ہوگا
میں اپنے آپ کو کب کا گنوائے بیٹھا ہوں

غزل
دیئے نگاہوں کے اپنی بجھائے بیٹھا ہوں
سرفراز نواز