EN हिंदी
دیئے نگاہوں کے اپنی بجھائے بیٹھا ہوں | شیح شیری
diye nigahon ke apni bujhae baiTha hun

غزل

دیئے نگاہوں کے اپنی بجھائے بیٹھا ہوں

سرفراز نواز

;

دیئے نگاہوں کے اپنی بجھائے بیٹھا ہوں
تجھے میں کتنے دنوں سے بھلائے بیٹھا ہوں

مرے لئے ہی دھڑکتا ہے کائنات کا دل
کہاں اکیلا کوئی بوجھ اٹھائے بیٹھا ہوں

غبار راہ اڑے تو کوئی امید جگے
میں کب سے راہ میں پلکیں بچھائے بیٹھا ہوں

ہنر جو خواب چرانے کا میں نے سیکھا ہے
یہاں پہ کتنوں کی نیندیں اڑائے بیٹھا ہوں

کہیں وہ مجھ سے مجھے مانگ لے تو کیا ہوگا
میں اپنے آپ کو کب کا گنوائے بیٹھا ہوں