دیے کتنے اندھیری عمر کے رستوں میں آتے ہیں
مگر کچھ وصف ہیں جو آخری برسوں میں آتے ہیں
چراغ انتظار ایسی نگہبانی کے عالم میں
منڈیروں پر نہیں جلتے تو پھر پلکوں میں آتے ہیں
بہت آب و ہوا کا قرض واجب ہے مگر ہم پر
یہ گھر جب تنگ ہو جاتے ہیں پھر گلیوں میں آتے ہیں
میان اختیار و اعتبار اک حد فاصل ہے
جو ہاتھوں میں نہیں آتے وہ پھر باہوں میں آتے ہیں
کوئی شے مشترک ہے پھول کانٹوں اور شعلوں میں
جو دامن سے لپٹتے ہیں گریبانوں میں آتے ہیں
کشادہ دست و بازو کو جو پت جھڑ میں بھی رکھتے ہیں
پرندے اگلے موسم کے انہی پیڑوں میں آتے ہیں
غزل
دیے کتنے اندھیری عمر کے رستوں میں آتے ہیں
صفدر صدیق رضی