EN हिंदी
دئیے کی لو سے نہ جل جائے تیرگی شب کی | شیح شیری
diye ki lau se na jal jae tirgi shab ki

غزل

دئیے کی لو سے نہ جل جائے تیرگی شب کی

ابرار حامد

;

دئیے کی لو سے نہ جل جائے تیرگی شب کی
کہ دن کی قدر کا باعث ہے ہر گھڑی شب کی

جو دل خراش ہیں کچھ لمحے دن کے لمحوں میں
تو دل فروز بھی ہیں ساعتیں کئی شب کی

کہاں کے خواب مرے اور کہاں کی تعبیریں
مجھے تو سونے نہ دے اب سحر گری شب کی

جو وہ نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے پھر حامدؔ
عبث ہیں چاند کے بن رونقیں سبھی شب کی