دیے کا کام اب آنکھیں دکھانا رہ گیا ہے
یہ سیدھا جل چکا الٹا جلانا رہ گیا ہے
ہمیں سامان پورا کر نہیں پائے کہ چلتے
سو رہتے رہتے اس جنگل سے جانا رہ گیا ہے
سر کوہ ندا یہ پہلی پہلی خامشی ہے
کوئی آواز ہے جس کا لگانا رہ گیا ہے
یہ دو بازو ہیں سو تھوڑی ہیں کھولوں اور بتا دوں
مرے اطراف میں کس کس کا آنا رہ گیا ہے
کماں داروں کا جشن اس رات ابھی بنتا نہیں تھا
میں کہتا رہ گیا میرا نشانہ رہ گیا ہے
سڑک پر پھول ایک آیا پڑا ہے اور مسافر
کئی ایسے ہیں جن کا آنا جانا رہ گیا ہے
غزل
دیے کا کام اب آنکھیں دکھانا رہ گیا ہے
شاہین عباس