دیئے ہیں رنج سارے آگہی نے
اندھیرے میں رکھا ہے روشنی نے
مری راہوں میں جتنے پیچ و خم ہیں
یہ سب بخشے ہیں تیری سادگی نے
جہاں ہر آشنا ہے سنگ در دست
کوئی پتھر نہ مارا اجنبی نے
حساب دوستاں در دل بھی کیوں ہو
کسی کو کیا دیا آخر کسی نے
اندھیروں میں پناہیں ڈھونڈھتا ہوں
دیئے ہیں زخم اتنے روشنی نے
میں پتھر بن کے عشقیؔ جی رہا ہوں
مجھے مل کر تراشا ہے سبھی نے
غزل
دیئے ہیں رنج سارے آگہی نے
شاہد عشقی