EN हिंदी
دیے اپنی ضو پہ جو اترا رہے ہیں | شیح شیری
diye apni zau pe jo itra rahe hain

غزل

دیے اپنی ضو پہ جو اترا رہے ہیں

عاطف خان

;

دیے اپنی ضو پہ جو اترا رہے ہیں
اندھیرے محافظ ہوئے جا رہے ہیں

جو ہم دل کے دل میں ہی دفنا رہے ہیں
وہ اسرار خود ہی کھلے جا رہے ہیں

انہیں بھولنا اتنا آساں نہ ہوگا
مری زندگی جو ہوئے جا رہے ہیں

تمہاری صداقت کی ہے یہ ہی قیمت
ہم الزام سر پہ لیے جا رہے ہیں

ہمی سے ہے غافل ہمارا مسیحا
ادھر آس میں زہر ہم کھا رہے ہیں