دیے اپنی ضو پہ جو اترا رہے ہیں
اندھیرے محافظ ہوئے جا رہے ہیں
جو ہم دل کے دل میں ہی دفنا رہے ہیں
وہ اسرار خود ہی کھلے جا رہے ہیں
انہیں بھولنا اتنا آساں نہ ہوگا
مری زندگی جو ہوئے جا رہے ہیں
تمہاری صداقت کی ہے یہ ہی قیمت
ہم الزام سر پہ لیے جا رہے ہیں
ہمی سے ہے غافل ہمارا مسیحا
ادھر آس میں زہر ہم کھا رہے ہیں
غزل
دیے اپنی ضو پہ جو اترا رہے ہیں
عاطف خان