دیا جو ساقی نے ساغر مے دکھا کے آن اک ہمیں لبالب
اگرچہ میکش تو ہم نئے تھے پہ لب پہ رکھتے ہی پی گئے سب
چلتے ہیں دینے کو ہم جسے دل وہ ہنس کے لے لے بس اب ہمیں تو
یہی ہے خواہش یہی تمنا یہی ہے مقصد یہی ہے مطلب
کبھی جو آتے ہیں دیکھنے ہم تو آپ تیوری کو ہیں چڑھاتے
جو ہر دم آویں تو کیجے خفگی میاں ہم آتے ہیں ایسے کب کب
نہ پی تھی ہم نے یہ مے تو جب تک نظیرؔ ہم میں تھا دین و ایماں
لگا لبوں سے وہ جام پھر تو کہاں کا دین اور کہاں کا مذہب
غزل
دیا جو ساقی نے ساغر مے دکھا کے آن اک ہمیں لبالب
نظیر اکبرآبادی