EN हिंदी
دن اترتے ہی نئی شام پہن لیتا ہوں | شیح شیری
din utarte hi nai sham pahan leta hun

غزل

دن اترتے ہی نئی شام پہن لیتا ہوں

فیض خلیل آبادی

;

دن اترتے ہی نئی شام پہن لیتا ہوں
میں تری یادوں کا احرام پہن لیتا ہوں

میرے گھر والے بھی تکلیف میں آ جاتے ہیں
میں جو کچھ دیر کو آرام پہن لیتا ہوں

رات کو اوڑھ کے سو جاتا ہوں دن بھر کی تھکن
صبح کو پھر سے کئی کام پہن لیتا ہوں

جب بھی پردیس میں یاد آتا ہے گھر کا نقشہ
میں تصور میں در و بام پہن لیتا ہوں

ایک چاندی کی انگوٹھی کے حوالے سے فقط
اپنی انگلی میں ترا نام پہن لیتا ہوں

فیضؔ یوں رکھتا ہوں میں اس کی محبت کا بھرم
اس کے حصے کے بھی الزام پہن لیتا ہوں