دن سے بچھڑی ہوئی بارات لیے پھرتی ہے
چاند تاروں کو کہاں رات لیے پھرتی ہے
یہ کہیں اس کے مظالم کا مداوا ہی نہ ہو
یہ جو پتوں کو ہوا ساتھ لیے پھرتی ہے
چلتے چلتے ہی سہی بات تو کر لی جائے
ہم کو دنیا میں یہی بات لیے پھرتی ہے
لمحہ لمحہ تری فرقت میں پگھلتی ہوئی عمر
گرمی شوق ملاقات لیے پھرتی ہے
ورنہ ہم شہر گل آزار میں کب آتے تھے
یہ تو ہم کو بھری برسات لیے پھرتی ہے
جس طرف سے میں گزرتا بھی نہیں تھا پہلے
اب وہیں گردش حالات لیے پھرتی ہے
غزل
دن سے بچھڑی ہوئی بارات لیے پھرتی ہے
احمد فرید