EN हिंदी
دن رات تمہاری یادوں سے ہم زخم سنوارا کرتے ہیں | شیح شیری
din raat tumhaari yaadon se hum zaKHm sanwara karte hain

غزل

دن رات تمہاری یادوں سے ہم زخم سنوارا کرتے ہیں

ہدایت اللہ خان شمسی

;

دن رات تمہاری یادوں سے ہم زخم سنوارا کرتے ہیں
پردیس میں جیسے تیسے ہی اے دوست گزارا کرتے ہیں

خوددار طبیعت ہے اپنی فاقوں پہ بسر کر لیتے ہیں
احسان کسی کا دنیا میں ہرگز نہ گوارا کرتے ہیں

اب لاکھ خزاؤں کا موسم بھی کچھ نہ گلوں کا کر پائے
ہم خون جگر سے گلشن کا ہر رنگ نکھارا کرتے ہیں

اطراف ہمارے لوگوں کی اک بھیڑ تھی جب تک پیسہ تھا
یہ جیب ہوئی اب خالی تو سب لوگ کنارہ کرتے ہیں

جب ان کے مقابل ہوتے ہیں وہ بات نہیں کرتے ہم سے
اور دور نظر سے ہوتے ہی بس ذکر ہمارا کرتے ہیں

کیوں زخم دکھائیں ہم شمسیؔ اب کون لگائے گا مرہم
سب لوگ تو دل میں ہنس ہنس کر خنجر ہی اتارا کرتے ہیں