EN हिंदी
دن رات کے دیکھے ہوئے منظر سے الگ ہے | شیح شیری
din raat ke dekhe hue manzar se alag hai

غزل

دن رات کے دیکھے ہوئے منظر سے الگ ہے

مبین مرزا

;

دن رات کے دیکھے ہوئے منظر سے الگ ہے
یہ لمحہ تو موجود و میسر سے الگ ہے

موجیں کہ بگولے ہوں مرے دل کا ہر اک رنگ
صحرا ہے جدا اور سمندر سے الگ ہے

وہ شے کہ لگے جس سے مری روح پہ یہ زخم
واقف ہی نہیں تو ترے خنجر سے الگ ہے

پوشیدہ نہیں مجھ سے یہ دنیا کی حقیقت
باہر سے مرے ساتھ ہے اندر سے الگ ہے

اک رنگ برستا ہی رہا مجھ پہ اگرچہ
معلوم تھا وہ میرے مقدر سے الگ ہے

تجھ کو نہیں معلوم ہوئے جس پہ فدا ہم
ہے اور ہی کچھ جو ترے پیکر سے الگ ہے

اس چشم کرم نے مجھے بخشا جو خزینہ
ان مول ہے وہ اور زر و گوہر سے الگ ہے

اس شخص کی الفت نے پھر اک روز بتایا
قسمت مری دارا و سکندر سے الگ ہے