دن نکلتا ہے تو سامان سفر ڈھونڈتے ہیں
رات پڑتی ہے تو ہم اپنی خبر ڈھونڈتے ہیں
رابطہ کچھ تو رہے روح کا پاتال کے ساتھ
آج ہم بھی تری آنکھوں میں بھنور ڈھونڈتے ہیں
کوئی خوشبو نہ یہاں انجم و مہتاب کی ضو
ان گھروں سے بہت آگے ہے جو گھر ڈھونڈتے ہیں
عشق سے داد طلب ہیں کہ ہم آوارہ منش
در میں دیوار نہ دیوار میں در ڈھونڈتے ہیں
کیوں جدائی کے مہ و سال میں بدلے تو نے
آ محبت کے وہی شام و سحر ڈھونڈتے ہیں
وہ جو اب سرحد امکاں سے پرے رہتا ہے
کب وہ جعفرؔ ہمیں ملتا ہے مگر ڈھونڈتے ہیں

غزل
دن نکلتا ہے تو سامان سفر ڈھونڈتے ہیں
جعفر شیرازی