دن کو نہ گھر سے جائیے لگتا ہے ڈر مجھے
اس پارۂ سحاب کو سورج نہ دیکھ لے
اس ہاتھ کی مہک سے مرے ہاتھ شل ہوئے
اس قرب سے ملے مجھے صدیوں کے فاصلے
میری لویں بجھا نہ سکیں تیز آندھیاں
جھونکوں کی نرم دھار سے کہسار کٹ گئے
اپنی صدا کو روک لو کیا اس سے فائدہ
ڈھلوان پر بھلا کبھی پتھر ٹھہر سکے
حامدؔ عجب ادا سے کیا خون نے سفر
پلکوں کو سرخ کر گئے پاؤں کے آبلے

غزل
دن کو نہ گھر سے جائیے لگتا ہے ڈر مجھے
حامد جیلانی