دن جدائی کا دیا وصل کی شب کے بدلے
لینے تھے اے فلک پیر یہ کب کے بدلے
راحت وصل کسی کو تو کسی کو غم ہجر
صبر خالق نے دیا ہے مجھے سب کے بدلے
اتنی سی بات پہ بگڑے ہی چلے جاتے ہو
لے لو تم بوسۂ لب بوسۂ لب کے بدلے
فرقت یار میں جینے کے اٹھائے الزام
موت آئی نہ مجھے ہجر کی شب کے بدلے
آج اغیار وفاؔ سے نہ الجھ بیٹھے ہوں
طور آتے ہیں نظر بزم طرب کے بدلے
غزل
دن جدائی کا دیا وصل کی شب کے بدلے
میلہ رام وفاؔ