دن ہے بے کیف بے گناہوں سا
نا کشادہ شراب گاہوں سا
کچھ فقیرانہ بے نیازی بھی
کچھ مزاج اپنا بادشاہوں سا
دل در میکدہ سا وا سب پر
گھر بھی رکھتے ہیں خانقاہوں سا
سب پہ کھلتے نہیں مگر مرے شعر
حال ہے کچھ تری نگاہوں سا
آ گیا ہے بیان میں کیوں کر
پیچ و خم سارا تیری راہوں سا
کچھ نفس میں شراب کی سی مہک
کچھ ہوا میں نشہ گناہوں سا
اجلی اجلی پہاڑیوں پر زیبؔ
رنگ اترا ہے جلوہ گاہوں سا
غزل
دن ہے بے کیف بے گناہوں سا
زیب غوری