EN हिंदी
دن دہکتی دھوپ نے مجھ کو جلایا دیر تک | شیح شیری
din dahakti dhup ne mujhko jalaya der tak

غزل

دن دہکتی دھوپ نے مجھ کو جلایا دیر تک

جعفر شیرازی

;

دن دہکتی دھوپ نے مجھ کو جلایا دیر تک
رات تنہائی میں کالا ابر برسا دیر تک

تو یہ کہتا ہے کہ تو کل رات میرے ساتھ تھا
میں یہ کہتا ہوں کہ میں نے تجھ کو ڈھونڈا دیر تک

پاس رکھ کر اجلے اجلے دودھ سے یادوں کے جسم
دیر سے بیٹھا ہوں میں بیٹھا رہوں گا دیر تک

پہلے تیری چاہتوں کے غم تھے اب فرقت کے دکھ
مجھ پہ اب طاری رہے گا یہ بھی عرصہ دیر تک

کون ٹھہرے آنے والے موسموں کے سامنے
کون خالی رکھ سکے طاق تماشا دیر تک

اب وہ باتیں اب وہ قصے کس طرح جعفرؔ بھلائیں
ایسے صدموں کا اثر دل پر رہے گا دیر تک