دماغ و دل پہ ہو کیا اثر اندھیرے کا
کہ دیدہ ور بھی ہے اب ہم سفر اندھیرے کا
دیار نور میں ہر سمت خاک اڑنے لگی
وجود ہونے لگا معتبر اندھیرے کا
یہ راستہ تو چراغوں سے جگمگاتا ہے
ادھر سے ہونے لگا کیوں گزر اندھیرے کا
اب اس کے پھولنے پھلنے میں دن ہی کتنے ہیں
جڑیں جما تو چکا ہے شجر اندھیرے کا
یہاں تو روشنیوں کا پڑاؤ ہوتا ہے
تو کیا یہیں پہ بسے گا نگر اندھیرے کا
سسکتی شمعوں کا یہ آخری ٹھکانا ہے
شروع ہوگا یہیں سے سفر اندھیرے کا
بصیرتوں کے امیں ہیں ہمیں مگر ہم نے
بسا لیا ہے رگ و پے میں ڈر اندھیرے کا
مناؤ خیر اجالوں کے بام و در والو
فضا میں رقص کناں ہے شرر اندھیرے کا
وہ اپنے ساتھ تو لے کر چراغ چلتے تھے
شکار کیوں ہوئے اہل نظر اندھیرے کا

غزل
دماغ و دل پہ ہو کیا اثر اندھیرے کا
ارمان نجمی