EN हिंदी
دماغ عرش پہ ہے خود زمیں پہ چلتے ہیں | شیح شیری
dimagh arsh pe hai KHud zamin pe chalte hain

غزل

دماغ عرش پہ ہے خود زمیں پہ چلتے ہیں

بیکل اتساہی

;

دماغ عرش پہ ہے خود زمیں پہ چلتے ہیں
سفر گمان کا ہے اور یقیں پہ چلتے ہیں

ہمارے قافلہ سالاروں کے ارادے کیا
چلے تو ہاں پہ ہیں لیکن نہیں پہ چلتے ہیں

نہ جانے کون سا نشہ ہے ان پہ چھایا ہوا
قدم کہیں پہ ہیں پڑتے کہیں پہ چلتے ہیں

بنا کے ان کو اگر چھوڑ دو تو گر جائیں
مکاں نئے کہ پرانے مکیں پہ چلتے ہیں

جہاں تمہارا ہے تم کو کسی کا ڈر کیا ہے
تمام تیر جہاں کے ہمیں پہ چلتے ہیں