دماغ عرش پہ ہے خود زمیں پہ چلتے ہیں
سفر گمان کا ہے اور یقیں پہ چلتے ہیں
ہمارے قافلہ سالاروں کے ارادے کیا
چلے تو ہاں پہ ہیں لیکن نہیں پہ چلتے ہیں
نہ جانے کون سا نشہ ہے ان پہ چھایا ہوا
قدم کہیں پہ ہیں پڑتے کہیں پہ چلتے ہیں
بنا کے ان کو اگر چھوڑ دو تو گر جائیں
مکاں نئے کہ پرانے مکیں پہ چلتے ہیں
جہاں تمہارا ہے تم کو کسی کا ڈر کیا ہے
تمام تیر جہاں کے ہمیں پہ چلتے ہیں
غزل
دماغ عرش پہ ہے خود زمیں پہ چلتے ہیں
بیکل اتساہی