دلوں سے یاس و الم کے نقاب اتارو تو
سحر بھی روپ دکھائے گی شب گزارو تو
فضا کے سینے میں نغموں کے لے اتارو تو
اسی ادا سے ذرا پھر مجھے پکارو تو
مرے غموں کے دھندلکے بھی چھٹ ہی جائیں گے
تم اپنے گیسوئے شب رنگ کو سنوارو تو
کہاں گئے مجھے تاریکیوں میں الجھا کر
حیات رفتہ کے لمحو ذرا پکارو تو
خزاں رسیدہ فضاؤں کو روؤ گے کب تک
بہار گوش بر آواز ہے پکارو تو
پھر اس کے بعد سحر ہی سحر ہے اے ارشدؔ
رخ حیات کے تیور ذرا نکھارو تو

غزل
دلوں سے یاس و الم کے نقاب اتارو تو
ارشد صدیقی