EN हिंदी
دلوں سے خوف کے آسیب و جن نکالتا ہے | شیح شیری
dilon se KHauf ke aaseb-o-jin nikalta hai

غزل

دلوں سے خوف کے آسیب و جن نکالتا ہے

انجم بارہ بنکوی

;

دلوں سے خوف کے آسیب و جن نکالتا ہے
وہی چراغ جلاتا ہے دن نکالتا ہے

عجیب تیشہ ہے مزدور کا پسینہ بھی
پہاڑ کاٹ کے راستہ کٹھن نکالتا ہے

یہ بادشاہ نہیں ہے فقیر ہے سورج
ہمیشہ رات کی جھولی سے دن نکالتا ہے

ذرا سی دیر میں کوئی گلاب توڑے گا
جو اپنے کوٹ کے کالر سے پن نکالتا ہے

اسی کے نام سے منسوب ہے غزل اپنی
جو نام پھول کھلاتا ہے دن نکالتا ہے