دلوں سے خوف کے آسیب و جن نکالتا ہے
وہی چراغ جلاتا ہے دن نکالتا ہے
عجیب تیشہ ہے مزدور کا پسینہ بھی
پہاڑ کاٹ کے راستہ کٹھن نکالتا ہے
یہ بادشاہ نہیں ہے فقیر ہے سورج
ہمیشہ رات کی جھولی سے دن نکالتا ہے
ذرا سی دیر میں کوئی گلاب توڑے گا
جو اپنے کوٹ کے کالر سے پن نکالتا ہے
اسی کے نام سے منسوب ہے غزل اپنی
جو نام پھول کھلاتا ہے دن نکالتا ہے
غزل
دلوں سے خوف کے آسیب و جن نکالتا ہے
انجم بارہ بنکوی