دلوں پر یہ نقش اس نے اپنا بٹھایا
کہ جو چوٹ پر صید آیا بٹھایا
مثال کبوتر مرے دل کو اس نے
بھگایا بلایا اٹھایا بٹھایا
ترے آتشیں حسن نے شمع کو شب
کھپایا جلایا گلایا بٹھایا
اٹھایا اسی غم نے دنیا سے پیارے
کبھی تم نے ہم کو نہ تنہا بٹھایا
سمجھ تیری الٹی ہے اے جان عالم
کہ اپنا اٹھایا پرایا بٹھایا
نہ بولے لحد میں بھی ہم ڈر سے تیرے
فرشتوں نے کتنا جگایا بٹھایا
گیا کوٹھے پر وہ یہ کی مہ نے عظمت
کہ اجلا بچھونا بچھایا بٹھایا
یہ وہ قیس ہے خاص شاگرد میرا
پکڑ کان جس کو اٹھایا بٹھایا
وقارؔ اس غزل کی زمیں حد بری تھی
بہت زور دے کر بٹھایا بٹھایا

غزل
دلوں پر یہ نقش اس نے اپنا بٹھایا
کشن کمار وقار