دلوں پر نقش ہونا چاہتا ہوں
مکمل موت سے گھبرا رہا ہوں
سبھی سے راز کہہ دیتا ہوں اپنے
نہ جانے کیا چھپانا چاہتا ہوں
توجہ کے لئے ترسا ہوں اتنا
کہ اک الزام پر خوش ہو رہا ہوں
مجھے محفل کے باہر کا نہ جانو
میں اپنا جام خالی کر چکا ہوں
یہ عادت بھی اسی کی دی ہوئی ہے
کہ سب کو مسکرا کر دیکھتا ہوں
الگ ہوتی ہے ہر لمحے کی دنیا
پرانا ہو کے بھی کتنا نیا ہوں
غزل
دلوں پر نقش ہونا چاہتا ہوں
شارق کیفی