دلوں میں خوف کے چولھے کی آگ ٹھنڈی ہو
کبھی نہ ملنے ملانے کی آگ ٹھنڈی ہو
ہم ایک ساتھ اٹھا لائے تھے یہ ہجر کی آگ
خدا کرے، ترے حصے کی آگ ٹھنڈی ہو
پگھل رہے ہیں ہم اک فاصلے پہ بیٹھے ہوئے
گلے لگو کہ یہ سینے کی آگ ٹھنڈی ہو
پکارتا ہے مجھے کیوں ابھی سے دوسرا عشق
ابھی تو فکر ہے پہلے کی آگ ٹھنڈی ہو
میں اس لئے بھی تری ہاں میں ہاں ملاتا رہا
کسی طرح ترے لہجے کی آگ ٹھنڈی ہو
مرے حریف سے کہہ دو اسے معاف کیا
میں چاہتا ہوں کہ بدلے کی آگ ٹھنڈی ہو
غزل
دلوں میں خوف کے چولھے کی آگ ٹھنڈی ہو
رانا عامر لیاقت